آسیبی شہر کی مسجد

فرخ سہیل گوئندی

27ستمبر 2020ء کو آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین یکدم جنگ چھڑی تو یہ معاملہ دنیا سمیت پاکستان کے میڈیا اور سوشل میڈیا میں نمایاں جگہ لے گیا۔یہ جنگ سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد اس وقت شروع ہوئی جب یہ دونوں سوویت ریپبلکس آزاد اور خودمختار ریاستوں میں بدل گئیں۔ یہ جنگ چار سال تک چلی جس میں 38000لوگ ہلاک ہوئے اور ساڑھے سات لاکھ آذری اور پانچ لاکھ آرمینی اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے۔ ان دونوں نوآزاد ریاستوں کے مابین یہ تصادم تہذیبی بھی ہے اور زمین و سرحدات کا جھگڑا بھی ہے۔
سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد آذر بائیجان اور آرمینیا نے ایک خون آلود جنگ لڑی۔ اور پھر دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی سرحدات کے اندر اپنے اپنے علاقوں کے دعوے شروع کردئیے۔
انہی بستیوں میں ایک آذری شہر ’’آہ دم‘‘ کے اجڑنے کی داستان بڑی دردناک ہے۔ آذری ترکوں کے اس شہر پر آرمینیا نے قبضہ کرلیا۔ اور سارے شہر کو اس طرح جلا کر خاکستر کر دیا جیسے آج سے ہزاروں سال پہلے فاتح، مقبوضہ بستیوں کو نذرِآتش کردیتے تھے۔
ترکی زبان میں اسے Agdamلکھتے ہیں جس کے معنی ہیں ’’سفید گھر‘‘۔
نوّے کی دہائی میں جب اس بستی پر آرمینیوں نے قبضہ کیا تو لوٹنے، جلانے اور بستی ڈھانے کے بعد یہ شہر دنیا میں ’’آسیبی شہر‘‘ کہلانے لگا، کھنڈر، جلی ہوئی عمارتیں، اکھڑی ہوئی سڑکیں اور اجڑے ہوئی عبادت گاہیں۔ایسی ہی مزید آسیبی بستیاں جو جنگوں کی نذر ہو گئیں اور میں نے جہاں گردی کے دوران دیکھیں ، آئندہ کبھی ان پر بھی لکھوں گا۔
انہی اجڑی ہوئی عبادت گاہوں میں ایک لاکھ کی اس بستی آہ دم کی ایک مسجد بھی اپنے عبادت گزاروں سے محروم ہوکر کھنڈر بن گئی۔ دیواروں اور چھتوں پر تحریر اسمائے مبارک مسخ ہوگئے، چھتیں گر گئیں۔ مگر اس ویران مسجد کے دو مینار اس آسیب زدہ بستی کی شناخت بن کر رہ گئے۔
تین ماہ قبل جب یہ جنگ شروع ہوئی تو میری ایک آذربائیجانی دوست نیلوفر نے مجھے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ امید ہے میں اپنی زندگی میں اپنا اجڑا گھر اور اپنا اجڑا شہر ’’آہ دم‘‘ دیکھ پائوں گی۔
مگر دونوں ممالک جلد ہی جنگ بندی کرنے میں کامیاب ہوگئے اور 10نومبر2020ء کو آذربائیجان جو اس حالیہ مختصر جنگ میں اس آسیبی بستی کو جنگ کے دوران دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، یہ آذری بستی معاہدے کے تحت آذربائیجان کے حوالے کردی گئی۔
اس اجڑی بستی کو جب حالیہ جنگ کے دوران آذری افواج نے فتح کیا تو آذربائیجان کے صدر الحام علیوف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’میں قوم کو یہ خوش خبری دے رہا ہوں کہ آہ دم اب پھر ہمارا ہے۔‘‘ اس اجڑی بستی کو دوبارہ حاصل کرنے پر سارے آذربائیجان میں جشن منایا گیا۔
اور جب معاہدے کے تحت ’’آہ دم‘‘ آذربائیجان کے حوالے کیا گیا تو آذری صدر الحام علیوف اس کھنڈر شہر میں داخل ہوئے اور سیدھے اس آسیب زدہ بستی کی جمعہ مسجد میں داخل ہوئے جو پچھلے ستائیس سال سے ایک کھنڈر کے طور پر اپنے دو میناروں کے ساتھ اس ’’آسیبی بستی‘‘ کی شناخت تھی، اور انہوں نے اس اجڑی مسجد کی دیواروں کو بوسہ دیا۔
آذربائیجان کے لوگ ترک ہیں اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ جمعہ مسجد جو 1870ء میں تعمیر ہوئی، اہل اسلام کے اسی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی مسجد ہے۔ آذربائیجان کی 95فیصد ترک آبادی اہل تشیع سے ہے۔
ایران کی 20فیصد سے زائد آبادی آذری ترکوں پر مشتمل ہے۔ ایران کے آذری صوبے ہیں۔ مشرقی آذربائیجان (ایران) جس کا دارالحکومت تبریز ہے، اسی شہر سے شمس تبریزی کا تعلق تھا۔ مغربی آذربائیجان (ایران) کا دارالحکومت ارومیہ کا خوب صورت شہر ہے۔
تہران کی 25فیصد آبادی آذری ترکوں پر مشتمل ہے۔
ایران کے راہبر انقلاب آیت اللہ خامینائی سمیت ایرانی آذری ، ایران کے کلیدی سیاسی عہدوں پر فائز ہیں۔
ایرانی آذری، ایران کی سیاست کے علاوہ دانش وفکر اور تجارتی حوالے سے بھی اہم پوزیشنز پر ہیں۔
ایران کے اندر کْل 2کروڑ آذری رہتے ہیں جبکہ جمہوریہ آذربائیجان جس کا آرمینیا سے جھگڑا چل رہا ہے، اس کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام آذری لوگ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، ایرانی آذربائیجان بھی اور جمہوریہ آذربائیجان کے آذری بھی۔
جمہوریہ آذربائیجان ایک سیکولر حکومت ہے۔
حالیہ جنگ میں ماضی کی طرح، ترکی نے آذربائیجان کی حمایت فرقہ پرستی یا مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ترک قوم ہونے کے ناتے سے کی۔
آسیبی بستی ’’آہ دم‘‘ کی جمعہ مسجد جلد ہی بحال ہوگی اور اہل اسلام شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے نمازی اپنے مسلک کے مطابق اذان ونماز ادا کریں گے۔
آرمینیا-آذربائیجان کے تنازع پر مزید معلومات کے لیے درج ذیل لنک کلک کیجئے۔
https://www.youtube.com/watch?v=kHIpfXvl0eg

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *