فرخ سہیل گوئندی
8فروری 2024ء کے انتخابات کے نتائج نے پاکستان کے اقتدار کے ممکنہ ڈھانچے میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات سے قبل جس طرح انتخابات میں یقینی کامیابی سے دور رکھنے کی کوششیں کی گئیں، وہ آپ اپنی مثال ہیں۔ اس کے قائد عمران خان کو پابند سلاسل کر دینے کے بعد مین سٹریم میڈیا میں ان کا نام تک لینے کی پابندی سے لے کر ان کے خلاف درج مقدمات کے فیصلوں تک ہی نہیں، بلکہ پی ٹی آئی کو اس کا انتخابی نشان بلاّ نہ دے کر کالعدم کر دیا گیا، لیکن پی ٹی آئی کے ووٹرز نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی جماعت کو ووٹوں سے لاد دیا۔ 8فروری کے انتخابی نتائج دو دنوں میں قسطوں کی شکل میں سامنے آئے۔ پہلے دن پی ٹی آئی انتخابی معرکے میں کامیابی کے حتمی پرچم گاڑتی نظر آئی اور دوسرے دن مسلم لیگ (ن) دھیرے دھیرے کامیابی کی طرف بڑھنے لگی۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے اپنی ’’کامیابیٔ موہوم‘‘ کی تقریر اسی لیے دوسرے دن 9 فروری کو کی اور یہ اعلان بھی کیا کہ وہ اب وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نہیں بلکہ وزارتِ عظمیٰ کا قلم دان ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو عطا کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی جن کے بڑے سے بڑے تجزیہ نگار انہیں بعد از انتخابات اتحادی قرار دے رہے تھے، اس تجزیے کی دھجیاں پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے دو روزہ اجلاس میں اڑ گئیں۔ جب پی پی پی نے یہ اعلان کیا کہ وہ وفاق میں حکومت سازی کا نہ تو حصہ بنے گی اور نہ ہی حکومتی بنچوں پر بیٹھے گی۔ سولہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومت جو اپریل 2022ء سے حالیہ انتخابات سے چند ماہ پہلے تک قائم تھی، اس کے ان دو اتحادیوں کے درمیان دراڑوں کا عمل یہاں تک ہی نہیں رکا۔ 15فروری کو تیسرے اہم اتحادی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما کا اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ، انتخابی دھاندلیوں کا الزام ، سابق آرمی چیف باجوہ پر عمران حکومت ختم کرنے کے الزام کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس نے پاکستانی سیاست میں درحقیقت بھونچال پیدا کردیا ہے۔ ابھی حکومت سازی کا عمل تو شروع نہیں ہوا کہ سارے ملک میں ایک نئی غیریقینی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ بات مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس میں سابق آرمی چیف جنرل باجوہ پر سابق عمران حکومت کو ڈھا دینے کے الزام تک محدود نہیں رہی بلکہ مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی، جو کہ دو سخت مخالف حریف ہیں، ان کے مابین سیاسی رابطوں اور ملاقاتوں تک جا پہنچی ہے۔ یہ صورتِ حال غیرمعمولی ہے اور شدید غیریقینی بھی۔
لیکن اس سارے تناظر میں پاکستانی سیاست میں جاری بھونچال پر ایک گہری نظر ڈالی جائے تو کچھ ایسے بیانات چونکا دیتے ہیں جن کا ہمارے تجزیہ نگار ذکر کرتے نظر نہیں آرہے۔ ان میں سرفہرست امریکہ کے دفتر خارجہ کی طرف سے انتخابات کے بعد مسلسل، حالیہ انتخابات کو شفاف تسلیم کیے جانا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ درحقیقت ان انتخابی نتائج کو ماننے سے انکاری ہے جس کے تحت پاکستان مسلم لیگ (ن) وفاق میں حکومت بنانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کا نمائندہ میتھیو ملر ہر روز پاکستانی الیکشن کو درحقیقت نہ ماننے کی رٹ لگائے ہوئے ہے جبکہ پاکستان کے دفترخارجہ نے امریکہ کے اس الزام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ آخر یہ سارا معاملہ کیا ہے کہ امریکہ وفاق میں ان انتخابی نتائج کو ماننے سے انکاری ہے جن کے تحت مسلم لیگ (ن) کی حکومت بن جائے۔
1977ء میں پاکستان میں بائیں بازو کے سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے الیکشن کروائے تو اس حکومت کے مخالف اتحاد ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ نے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کردیا اور پھر انہوں نے بھٹو حکومت کے خاتمے کے لیے تحریک بھی چلائی۔ ان دنوں وزیراعظم بھٹو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’سفید ہاتھی میرے خلاف ہو گیا ہے۔‘‘
یعنی امریکہ۔ جن لوگوں کو وہ زمانہ یاد ہے یا انہوں نے پاکستان کے ان انتخابات کی تاریخ کو پڑھ رکھا ہے، ان کو معلوم ہے کہ پاکستان میں اس وقت اتنے ڈالرز آئے کہ ڈالر کی قیمت کم ہوگئی۔ یعنی بھٹو مخالف حکومت کو امریکی مالی سپورٹ۔ اور اس کے ساتھ امریکہ نے بھٹو حکومت پر دبائو ڈالا اور پاکستان کی نہ صرف امدادبند کردی بلکہ بھٹو مخالف مظاہروں میں چلنے والی آنسو گیس کی سپلائی بھی بند کردی۔ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ بھٹو کے انتخابات کو نہ ماننا، بھٹو کے خلاف تحریک اور ان کی حکومت کے خاتمے کی سرپرستی امریکہ کررہا تھا۔ ان کے خلاف پہیہ جام ہڑتال ہوئی، بالکل ویسے ہی جیسے لاطینی امریکہ کے بائیں بازو کے رہنما الاندے کے خلاف۔ یعنی امریکہ نے 1977ء کے انتخابات کے نتائج کو نہیں مانا جس کے تحت بھٹو حکومت بننے جا رہی تھی۔ جب بات بڑھتی گئی تو جنرل ضیاالحق کی شکل میں 5جولائی 1977 ء کو براہِ راست مارشل لاء لگوانے کا انتظام کیا گیا۔
اسی طرح ذرا ماضی قریب میں دیکھیں تو ہمیں آج امریکہ کی طرف سے ایسے نتائج کو تسلیم نہ کیے جانے کا راز سمجھ میں آتا ہے۔ کہ وہ کیوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکومت بننے کے خلاف حالیہ انتخابی نتائج پر انگلی اٹھا رہا ہے۔ 2014ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی جب چینی صدر شی چن پنگ کو اس لیے دورۂ پاکستان منسوخ کرنا پڑا کہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی نے دھرنا دے کر پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کو مفلوج کر رکھا تھا۔ اور پھر 2018ء میں عمران حکومت اقتدار میں آئی تو چین کا اہم ترین منصوبہ سی پیک کھٹائی میں پڑگیا جوکہ 72 ارب ڈالرز کا ہے جس میں سے 36ارب ڈالرز لگ چکے ہیں۔
سی پیک منصوبہ جہاں پاکستان کے لیے اقتصادی ترقی کا کوریڈور ہے، وہیں یہ منصوبہ چین کی عالمی معیشت کے ساتھ ساتھ سٹریٹجک مفادات کا بھی تحفظ کرتی ہے۔ لگتا ہے 2018ء کے بعد پاکستان کے اقتدار کے حقیقی مراکز میں عوامی جمہوریہ چین نے دھیرے دھیرے اپنی لابنگ کرنا شروع کردی۔ بالکل ویسے جیسے شروع دن سے امریکہ، پاکستان کے اقتدار کے حقیقی مراکز کے اندر اپنی حمایت رکھتا ہے۔ اسی لیے چار سالوں کے اندر اس کو 2022ء میں کامیابی حاصل ہوگئی اور اب 2024ء کے انتخابات میں بھی۔ اسی لیے امریکہ حالیہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ جبکہ عوامی جمہوریہ چین، پاکستان کے ’’طاقت کے مراکز‘‘ میں لابنگ کرنے میں کامیاب نظر آرہا ہے ۔ اور یوں پاکستان میں انتخابات کے نتائج کے حوالے سے 8فروری اور 9 فروری دیکھے جا رہے ہیں۔ 8فروری کو پاکستان تحریک انصاف ناقابل شکست فتح حاصل کرتی نظر آئی اور 9فروری تک نتائج مسلم لیگ (ن) کی طرف بڑھتے نظر آنے لگے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے طاقت کے حقیقی مراکز جہاں امریکہ کو اپنا پرانا آقا مانتے تو ہیں، مگر ساتھ ہی ساتھ چین کو یکسر مسترد کرنے سے گریزاں نظر آرہے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ اگلے چند ہفتوں بعد ’’سفید ہاتھی‘‘ کامیاب ہوگا یا ’’پانڈا‘‘۔ مگر ایک بات طے ہے کہ ’’کلائنٹ سٹیٹ‘‘ اسی طرح عالمی طاقتوں کے باہمی مفادات کے تصادم میں چلتی ہے۔ ایک آزاد اور خودمختار ریاست عالمی طاقتوں کے مفادات کے تحت نہیں بلکہ اپنے قومی مفادات کے تحت ترقی کا سفر کرتی ہے۔